حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ

  • Admin
  • Oct 07, 2021

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنْ، وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَنْبِیَاِءوَالْمُرْسَلِیْنْ، وَعَلٰی آلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنْ، وَاَصْحَابِہِ الْاَکْرَمِیْنَ اَجْمَعِیْنْ، وَعَلٰی مَنْ اَحَبَّہُمْ وَتَبِعَہُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنْ۔

اَمَّا بَعْدُ!

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہَذِہٖ الأُمَّۃِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِینَہَا

(سنن ابی داؤد)

یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالی ہر صدی میں دینِ اسلام کی تجدید اور اس میں آنے والی خرافات اور برائیوں کے خاتمہ کے لئے باعظمت شخصیات کو دنیا میں پیدا فرماتا ہے؛ جو منشا ٔخداوندی و مرضیٔ رسالت پنا ہی کے مطابق دینِ متین کی حفاظت کرتی ہیں اور اس میں در آئی خرابیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اصلاح امت کا فریضہ انجام دیتی ہیں ۔

جیسا کہ سنن ابو داود میں حدیث پاک ہے :

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ فِیمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِہٰذِہِ الأُمَّۃِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہَا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کی ابتداء میں اس امت میں ایسوں کو وجود بخشتا ہے جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرتے ہیں۔

(سنن ابی داود، حدیث نمبر: 4293)

ولادت باسعادت :

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرت سیِّدُنا مجدّدِ اَلف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ہِند کے مقام ’’ سرہند ‘‘ میں 971ھ   1563ء کو ہوئی۔   (زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۲۷ماخوذاً) 

آپؒ کا نام مبارک احمد ہے۔آپؒ کی کنیت ابو البرکات اورلقب بدرالدین ہے۔ آپ ؒامیرالمؤمنین  حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اولاد میں سے ہیں ۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا حلیہ مبارک:

    آپ رحمۃ اللہ علیہ کی رنگت گندمی مائل بہ سفیدی تھی،  پیشانی کشادہ اور چہرہ ٔ مبارک خوب ہی نورانی تھا۔  اَبرو دراز، سیاہ اور باریک تھے۔ آنکھیں کشادہ اور بڑی جبکہ بینی (یعنی ناک ) باریک اور بلند تھی۔  لب  (یعنی ہونٹ) سرخ اور باریک ،  دانت موتی کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور چمکدار تھے ۔  رِیش  (یعنی داڑھی)   مبارک خوب گھنی ، دراز اور مربع  (یعنی چوکور) تھی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ دراز قد اور نازک جسم تھے ۔ آپ کے جسم پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی۔   پاؤں کی ایڑیاں صاف اور چمک دار تھیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ایسے نفیس (یعنی صاف ستھرے)   تھےکہ پسینے سے ناگوار بو نہیں آتی تھی ۔ 

(حَضَراتُ القُدْس، دفتر دُوُم ص ۱۷۱ مُلَخَّصًا)ً 

قلعے کی تعمیر اورپانچویں جدامجد کی برکت :    (حکایت) 

 رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پانچویں جدامجد حضرت سیِّدُنا امام رفیع الدین فاروقی حضرت سیِّدُنا مخدوم جہانیاں جہاں گشت سیّد جلال الدین بخاری سہروردی رحمۃ اللہ تعالی علیہ  (وفات:   785ھ)   کے  خلیفہ تھے۔   جب یہ دونوں حضرات ہند تشریف لائے اورسرہند شریف سے  ’’ موضع سرائس ‘‘ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے درخواست کی کہ ’’ موضع سرائس‘‘  اور ’’ سامانہ‘‘   کا درمیانی راستہ خطرناک ہے،جنگل میں پھاڑ کھانے والے خوفناک جنگلی جانور ہیں ، آپؒ (وقت کے بادشاہ )  سلطان فیروز شاہ تغلق کو ان دونوں کے درمیان ایک شہر آباد کرنے کا فرمائیں تاکہ لوگوں کوآسانی ہو۔  چنانچہ حضرت سیِّدُنا شیخ امام رفیع الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بھائی خواجہ فتح اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے حکم پر ایک قلعے کی تعمیر شروع کی،   لیکن عجیب حادثہ پیش آیا کہ ایک دن میں جتنا قلعہ تعمیر کیا جاتا دوسرے دن وہ سب ٹوٹ پھوٹ کر گر جاتا،    حضرت سیِّدُنامخدوم سیّد جلال الدین بُخاری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کو جب اس حادثے کا علم ہوا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام رفیع الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ  کو لکھا کہ آپؒ خود جا کر قلعے کی بنیاد رکھیے اور اسی شہر میں سکونت (یعنی مستقل قیام )   فرمائیے،   چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے قلعہ تعمیر فرمایا اور پھر یہیں سکونت اختیار فرمائی ۔   حضرت  سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت اسی شہر میں ہوئی ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات  ص۸۹مُلَخَّصًا) 

والد ماجد کا مقام :

      حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد حضرت سیِّدُنا شیخ عبدالاحد فاروقی چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ جید عالم دین اور ولیِ کامل تھے۔   آپ ؒایامِ جوانی میں اکتسابِ فیض کے لیے حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ   ( متوفی944 ھ /  1537ء )   کی خدمت میں حاضر ہوئے آستانۂ عالیہ پر قیام کا ارادہ کیا لیکن حضرت شیخ عبدالقدوس چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:’’ علومِ دینیہ کی تکمیل کے بعد آنا۔  ‘‘ آپ رحمۃ اللہ علیہ  جب تحصیل علم کے بعد حاضر ہوئے تو حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی رحمۃ اللہ علیہ وصال فرماچکے تھے اور ان کے شہزادے شیخ رکن الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:   983ھ /  1575ء)  مسندخلافت پر جلوہ افروز تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ سلسلئۂ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت سے مشرف فرمایا اور فصیح و بلیغ عربی میں اجازت نامہ مرحمت فرمایا۔   آپ رحمۃ اللہ علیہ کافی عرصہ سفر میں  رہے اور بہت سے اصحابِ معرفت سے ملاقاتیں کیں ،   بالآخر سر ہند تشریف لے آئے اور آخر عمر تک یہیں تشریف فرما ہو کر اسلامی کتب کا درس دیتے رہے۔   فقہ واُصول میں بے نظیر تھے،   کتب ِصوفیائے کرام:   تَعَرُّف،   عَوارِفُ المَعارِف اور فُصُوصُ الحِکَم کا درس بھی دیتے تھے،   بہت سے مشائخ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے اِستفادہ (یعنی فائدہ حاصل)   کیا۔  ’’سکندرے‘‘ کے قریب ’’اٹاوے‘‘ کے ایک نیک گھرانے میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نکاح ہوا تھا۔   امام ربانی ؒکے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ  نے80 سال کی عمر میں 1007ھ /  1598ء میں وصال فرمایا۔  آپ رحمۃ اللہ علیہ  کا مزار مبارک سر ہند شریف میں شہر کے مغربی جانب واقع ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں کنوز الحقائق اوراسرارالتشہدبھی شامل ہیں۔

(سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص ۷۷ تا ۷۹ مُلخّصاً )   

تعلیم و تربیت :

حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ  سے کئی علوم حاصل کیے۔  آپ رحمۃ اللہ علیہ  کو فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی محبت بھی اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ  سے ملی تھی،   چنانچہ فرماتے ہیں :  ’’اس فقیر کو عبادتِ نافلہ خصوصاً نفل نمازوں کی توفیق اپنے والد بزرگوار سے ملی ہے۔‘‘  

(مَبْدا ومَعاد ص)۶  

والد ماجد کے علاوہ دوسرے اساتذ ہ سے بھی استفادہ (یعنی فائدہ حاصل)   کیا ،مثلاً مولانا کمال کشمیری رحمۃ اللہ علیہ  سے بعض مشکل کتابیں پڑھیں ،   حضرت مولانا شیخ محمد یعقوب صرفی کشمیری رحمۃ اللہ علیہ  سے کتب حدیث پڑھیں اور سند،لی۔  حضرت قاضی بہلول بدخشی رحمۃ اللہ علیہ  سے قصیدہ بردہ شریف کے ساتھ ساتھ تفسیر و حدیث کی کئی کتابیں پڑھیں ۔  حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ   نے17 سال کی عمر میں علومِ ظاہری سے سندِ فراغت پائی۔    

(حَضَراتُ القُدْس،   دفتر دُوُم ص۳۲) 

جاہل صوفی شیطان کا مسخرہ :

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کااندازِ تدریس نہایت دل نشین تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تفسیر ِ بیضاوی،  بخاری شریف ،  مشکوۃ شریف ،  ہدایہ اور شرحِ مَواقف وغیرہ کتب کی تدریس فرماتے تھے۔   اسباق پڑھانے کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی اصلاح کے مدنی پھولوں سے بھی طلبہ کو نوازتے ۔  علمِ دین کے فوائداور اس کے حصول کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے علم و علما کی اہمیت بیان فرماتے ۔  جب کسی طالبِ علم میں کمی یا سستی ملاحظہ فرماتے تو اَحسن (یعنی بہت اچھے)   انداز میں اس کی اصلاح فرماتے چنانچہ حضرت بدر الدین سرہند ی رحمۃ اللہ علیہ    فرماتے ہیں :  ’’میں جوانی کے عالم میں اکثر غلبۂ حال کی وجہ سے پڑھنے کا ذوق نہ پاتاتوآپ رحمۃ اللہ علیہ    کمال مہربانی سے فرماتے:  سبق لاؤ اور پڑھو،   کیوں کہ جاہل صوفی تو شیطان کا مسخرہ ہے۔‘‘ (اَیضاً ص۸۹  مُلَخَّصًا) 

سنت نکاح :

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجدحضرت شیخ عبدالاحد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ  جب آپ رحمۃ اللہ علیہ  کو آگرہ  (الھند)  سے اپنے ساتھ سرہند لے جا رہے تھے،راستے میں جب تھا نیسر (تھا۔   نے ۔  سر) پہنچے تو وہاں کے رئیس شیخ سلطان کی صاحبزادی سے حضرت  مجدّدِاَلف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا عقدِ مسنون (یعنی سنتِ نکاح ) کروادیا۔ 

حضرت سیِّدُنامجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ حنفی ہیں:

حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سراج الائمہ حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہونے کے سبب حنفی تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سیِّدُناامامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ سےبے انتہا عقیدت و محبت رکھتے تھے۔   

شانِ امام اعظم ؒبزبانِ مجدد الف ثانیؒ :

حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 

بزرگوں کے بزرگ ترین امام ،امامِ اجل، پیشوائے اکمل ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بلندیِ شان کے متعلق میں کیا لکھوں ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ تمام ائمہ مجتہدین ر َحِمَہُمُ اللہُ خواہ وہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یاپھر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ان سب میں سب سے بڑے عالم اور سب سے زیادہ ورع و تقویٰ والے تھے ۔ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

  اَلْفُقَہَاءُ کُلُّہُمْ عِیَالُ اَبِیْ حَنِیفَۃ 

تمام فقہاء امام ابوحنیفہ ؒکے عیال ہیں ۔ (مَبْدا ومَعاد ص۴۹ مُلَخَّصًا) 

 اجازت و خِلافت:

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو مختلف سلاسلِ طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی :

{1} سلسلہ سہروردیہ کبرویہ میں اپنے استاد محترم حضرت شیخ یعقوب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی۔

{2} سلسلئۂ چشتیہ اور قادریہ میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد چشتی قادری رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔

{3} سلسلہ قادریہ میں کیتھلی ( مضافات سرہند) کے بزرگ حصرت شاہ سکندرقادری رحمۃ اللہ علیہ  سےاجازت و خلافت حاصل تھی۔

{4} سلسلئۂ  نقشبندیہ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللہ  نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ  سے اجازت و خلافت حاصل فرمائی ۔ (سیرت مجدد الف ثانی ص۹۱)

حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نےتین سلسلوں میں اکتسابِ فیض کا یوں ذِکر فرمایا ہے:   

’’مجھے کثیر واسطوں کے ذریعے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اِرادت حاصل ہے ۔  

سلسلئۂ نقشبندیہ میں 21،سلسلئۂ قادریہ میں 25اورسلسلئۂ چشتیہ میں 27 واسطوں سے۔  

(مکتوباتِ امامِ ربّانی،  دفتر سوم،  حصہ نہم،  مکتوب۸۷ج۲ص)۲۶ 

پیرو مرشد کا ادب واحترام : حکایت 

حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ محمد باقی باللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کابے حد ادب و احترم فرما یا کرتے تھے اور حضرت خواجہ محمد باقی باللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ بھی آپؒ کو بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔چنانچہ ایک روز حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ         حجرہ شریف میں تخت پر آرام فرمارہے تھے کہ حضرت خواجہ محمد باقی باللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ دوسرے درویشوں کی طرح تنِ تنہا تشریف لائے۔ جب آپ حجرے کے دروازے پر پہنچے تو خادم نے حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو بیدار کرنا چاہا مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے منع فرمایا دیا اور کمرے کے باہر ہی آپ  کے جاگنے کا انتظار کرنے لگے ۔  تھوڑی ہی دیر بعد حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھ کھلی باہر آہٹ سن کر آواز دی کون ہے ؟ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:  فقیر، محمد باقی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ          آواز سنتے ہی تخت سے مضطربانہ (یعنی بے قراری کے عالم میں )اٹھ کھڑے ہوئے اورباہر آکر نہایت عجزوانکساری کے ساتھ پیر صاحب کے سامنے باادب بیٹھ گئے ۔

( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۵۳مُلَخَّصًا)ً 

مزار شریف پر حاضری :

حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ لاہورمیں تھے کہ 25 جُمادَی الْآخِرہ 1012ھ کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو مرشد حضرت سیِّدُنا خواجہ محمد  باقی باللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا دہلی میں وصال ہوگیا۔ یہ خبرپہنچتے ہی آپ فوراً دہلی روانہ ہوگئے۔دہلی پہنچ کر مزارِ پرانوار کی زیارت کی ،فاتحہ خوانی اور اہلِ خانہ کی تعزیت سے  فارغ ہوکر سر ہند تشریف لائے۔ (ایضاً  ص۳۲،  ۱۵۹ مُلَخَّصًا)    

نیکی کی دعوت کا آغاز:

حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں تو قیام آگرہ کے زمانے ہی سے نیکی کی دعوت کا آغاز کردیا تھا،لیکن 1008ھ میں حضرت خواجہ محمد باقی باللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کے بعد باقاعدہ کام شروع فرمایا۔   عہدِ اکبری کے آخری سالوں میں مرکز الاولیا لاہور اور سرہند شریف میں رہ کر خاموشی اور دور اندیشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہے اس وقت علانیہ کوشش کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ جابرانہ اور قاہرانہ حکومت کے ہوتے ہوئے خاموشی سے کام کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا لیکن حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ خطرہ مول لے کر اپنی کوششیں جاری رکھیں اورحضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم کی مکی زندگی کے ابتدائی دور کو پیش ِ نظر رکھا۔   جب دورِ جہانگیری شروع ہوا تو مدنی زندگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برملا کوشش کا آغاز فرمایا۔  حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیکی کی دعوت اور لوگوں کی اِصلاح کے لیے مختلف ذرائع استعمال فرمائے۔   آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سنت ِ نبوی کی پیروی میں اپنے مریدوں ،خلفااور مکتوبات کے ذریعے اس تحریک کو پروان چڑھایا۔

(سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص۱۵۷ ملخّصًا) 

شوقِ تلاوت :

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سفرمیں تلاوتِ قراٰنِ کریم فرماتے رہتے،   بسا اوقات تین تین چار چارپارے بھی مکمل فرما لیا کرتے تھے۔  اس دوران آیتِ سجدہ آتی تو سواری سے اتر کر سجدہ ٔ تلاوت فرماتے۔

(زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۰۷مُلَخَّصًا) 

سنّت پر عمل کا انعام : حکایت 

حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دیگر معاملات کی طرح سونے جاگنے میں بھی سنّت کا خیال فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تراویح کے بعد آرام کے لیے بے خیالی میں  بائیں کروٹ پر لیٹ گئے ، اتنے میں خادم پاؤں دبانے لگا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اچانک خیال آیا کہ دائیں کروٹ پر لیٹنے کی سنّت ‘‘چھوٹ گئی ہے۔ نفس نے سستی دلائی کہ بھولے سے ایسا ہو جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ اُٹھے اور سنّت کے مطابق دائیں ( یعنی سیدھی)   کروٹ پر آرام فرما ہوئے۔  آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :اس سنّت پر عمل کرتے ہی مجھ پر عنایات ، برکات اور سلسلے کے انوار کا ظہور ہونے لگااور آواز آئی:’’ سنّت پر عمل کی وجہ سے آپ کو آخرت میں کسی قسم کا عذاب نہ دیا جائے گااور آپؒ کے پاؤں دبانے والے خادم کی بھی مغفرت کردی گئی ۔ ( ایضاًص۱۸۰مُلَخَّصًا)  

مغفرت کی بشارت :

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار تحدیثِ نعمت کے طور پر فرمایا : ایک دن میں اپنے رفقا کے ساتھ بیٹھا اپنی کمزوریوں پر غور و فکر کر رہا تھا،  عاجزی و انکساری کا غلبہ تھا۔  اِسی دوران بمصداقِ حدیث:

 ’’ مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ 

یعنی جو اللہ عزوجل کے لئے انکساری کرتا ہے اللہ عزوجل  اسےبلندی عطا فرماتاہے [1] اللہ عزوجل  کی طرف سے خطاب ہوا : 

  ’’غَفَرْتُ لَکَ وَلِمَنْ تَوَسَّلَ بِکَ بِوَاسِطَۃٍ اَوْبِغَیْرِ وَاسِطَۃٍ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃ 

یعنی میں نے تم کو بخش دیا اور قیامت تک پیدا ہونے والے ان تمام لوگوں کو بھی بخش دیا جو تیرے وسیلے  سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مجھ تک پہنچیں ۔

اس کے بعد مجھے حکم دیا گیا کہ میں اس بشارت کو ظاہر کر دوں ۔

(حَضَراتُ القُدْس،   دفتر دُوُم  ص ۱۰۴مُلَخَّصًا))) 

ثواب کا تحفہ :حکایت   

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سفر و حضر کے خادم حضرت حاجی حبیب احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  کے ’’ اجمیر شریف‘‘ قیام کے دوران ایک دن میں نے 70ہزار بار کلمہ طیبہ پڑھا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: میں نے 70 ہزار بار کلمہ شریف پڑھا ہے اُس کا ثواب آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراًہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔  اگلے روز فرمایا:   کل جب میں دعا مانگ رہا تھا تومیں نے دیکھا:   فرشتوں کی فوج اُس کلمہ طیبہ کا ثواب لے کر آسمان سے اتر رہی ہے ان کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ زمین پر پاؤں رکھنے کی جگہ باقی نہ رہی !  آپ رحمۃ اللہ علیہ  نے مزید فرمایا:اس ختم کا ثواب میرے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔  انہی حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مجھ سے فرمایا: میں نے جو کچھ بتایا اس پر تعجب نہ کرنا ، میں اپنا حال بھی تمہیں بتاتا ہوں :   میں روزانہ تہجد کے بعد پانچ سو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مرحوم بچوں محمد عیسیٰ، محمد فرخ اور بیٹی ام کلثوم کوا یصالِ ثواب کرتا تھا ۔   ہر رات ان کی روحیں کلمہ طیبہ کے ختم کے لیے آمادہ کرتی تھیں ۔  جب تک میں تہجدکی ادائیگی کے بعد کلمہ طیبہ کا ختم نہ کرلیتا وہ روحیں میرے اردگرد اسی طرح چکر لگاتی رہتی جیسے بچے روٹی کے لیے ماں کے گرد اُس وقت تک منڈلاتے رہتے ہیں جب تک انہیں روٹی نہ مل جائے۔  جب میں کلمہ طیبہ کا ایصالِ ثواب کر دیتا تو وہ روحیں واپس لوٹ جاتیں ۔   مگر اب کثر تِ ثواب کی وجہ سے وہ معمور ہیں اور اب اُن کا آنا نہیں ہوتا۔ 

(ایضاً ص۹۵ مُلَخَّصًا) 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے ایصال ثواب کی حکایت :

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پہلے اگر میں کبھی کھانا پکاتا تو اس کا ثواب حضور سرور عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم  و امیرُالْمُؤمِنِین حضرت مولائے کائنات، علی المرتضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم و حضرت خاتون جنت فاطمۃ الزہرا و حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعَالٰی عنہم کی ارواح مقدسہ کے لئے ہی خاص ایصال ثواب کرتا تھا۔   ایک رات خواب میں دیکھا کہ جناب رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم تشریف فرما ہیں ۔ میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم کی خدمت بابرکت میں سلام عرض کیاتو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم میری جانب  متوجہ نہ ہوئے اور چہرہ ٔ انور دوسری جانب  پھیر لیا اورمجھ سے فرمایا:’’ میں عائشہ کے گھر کھانا کھاتا ہوں ، جس کسی نے مجھے کھانا بھیجنا ہو وہ  (حضرت) عائشہ کے گھر بھیجا کرے۔ ‘‘اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم کے توجہ نہ فرمانے کا سبب یہ تھا کہ میں  اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو شریک طعام  ( یعنی ایصال ثواب)  نہ کرتا تھا۔   اس کے بعدسے میں حضرت  سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابلکہ تمام اُمہاتُ  الْمؤمِنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کو بلکہ سب اہل بیت کو شریک کیا کرتا ہوں اور تمام اہل بیت کو اپنے لئے وسیلہ بناتا ہوں ۔   

(مکتوباتِ امام ربّانی،  دفتر دوم حصہ ششم مکتوب ۳۶ ج۲ ص۸۵)      

ولی ولی کو پہچانتا ہے :حکایت

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جن دنوں مرکزالاولیا لاہور میں قیام پذیر تھے اس دوران ایک سبزی فروش آپ رحمۃ اللہ کی بارگاہِ عالی میں حاضر ہوا۔  آپ رحمۃ اللہ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اس کے جانے کے بعد آپؒ سے عرض کی گئی:  وہ تو سبزی فروش تھا!(اس کی ایسی تعظیم؟)  ارشاد فرمایا:   وہ ابدال  (یعنی وَلی اللہ)   ہیں ،   خود کو چھپانے کے لیے یہ پیشہ اختیار کر رکھاہے ۔   

(حَضَراتُ القُدْس،   دفتر دُوُم ص)۹۸ 

جوانی کیسے گزاریں ؟

عمر کا کوئی سا بھی حصہ ہو، نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہنے میں بھلائی نہیں اور نفس کی شرارت جوانی کے زمانے میں تو عروج (یعنی بُلندی)   پر ہوتی ہے، نفس کو علم و عمل کی لگام ڈال کر اس کی تربیت کرنے کا یہی وقت ہوتا ہے ۔  حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس جانب توجہ دلائی ہے چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’جوانی کی ابتدا جس طرح ہوا وہوس (یعنی خواہشات کے ابھرنے ) کا وقت ہے، اسی طرح علم وعمل کواپنانے کا بھی یہی وقت ہے،جوانی میں کی جانے والی عبادات بڑھاپے کی عبادات سے افضل ہیں ۔

(مکتوباتِ امام ِربّانی،  دفتر سوم ،  حصہ ہشتم،  مکتوب۳۵ ج ۲ص۸۷ ملخّصًا))) 

جوانی نعمتِ خداوَندی

ایام جوانی کے اَوقات کی قدْر دانی بہت ضروری ہے کیونکہ جوانی میں انسان کے اَعضا مضبوط اور طاقتورہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے اَحکام وعبادات کی بجاآوری،   خوش اُسلوبی کے ساتھ ممکن ہوتی ہے، بُڑھاپے میں یہ بہاریں کہاں نصیب! اُس وقْت تو مسجد تک جانا بھی دشوار ہو جاتاہے۔ بھوک پیاس کی شدّت برداشْت کرنے کی بھی ہِمّت نہیں رہتی، نفْل تو کُجا فرْض روزے پورے کرنے بھی بھاری پڑجاتے ہیں ۔ جوانی اللہ عز وجل کی بہت بڑی نعمت ہے، جسے یہ نعمت ملے اُسے اِس کی قدْر کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ وَقْت عبادت واِطاعت میں گزارنا چاہئے،  اوقات کے اَنمول ہیروں کو نفع مندبنانا چاہئے۔ حکیم ُ الا ُمّت حضرت مفتی احمدیار خان رحمۃ اللہ علیہ             نقل فرماتے ہیں :

جوانی کی عبادت بڑھاپے کی عبادت سے افضل ہے کہ عبادات کا اصل وقت جوانی ہے۔  

شعر

کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نہیں   جب بڑھاپا آگیا کچھ بات بن پڑتی نہیں

ہے بڑھاپا بھی غنیمت جب جوانی ہوچکی  یہ بڑھاپا بھی نہ ہوگا موت جس دم آگئی

وقت کی قدر کرو، اسے غنیمت جانو، گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔  

( مراٰۃ المناجیح ج۳ص)۱۶۷ 

حافظ قرآن کا ادب :

ایک مرتبہ ایک حافظ صاحب حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھ کر قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ  نے جب ان کی طرف نگاہ فرمائی تو دیکھا کہ جس جگہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرماہیں وہ جگہ حافظ صاحب والی جگہ سے تھوڑی اونچی ہے۔   آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً اپنی نشست (یعنی بیٹھک)   نیچی کردی۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات  ص)۱۹۵)

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے 40 معمولات:

٭ سفر ہو یا حضر ، سردی ہو یا گرمی ،  آپ رحمۃ اللہ علیہ آدھی رات کے بعد بیدار ہو جاتے اورمسنون دعائیں پڑھتے۔ ٭پابندی سے تہجد ادا فرماتے اور تہجد میں طویل

قراء ت کرتے۔

 ٭قبلہ رو بیٹھ کر وضو فرماتے ۔٭وضو میں کسی سے مدد نہ لیتے۔

 ٭وضو میں مسواک فرماتے،  فراغت کے بعد کاتب (یعنی لکھنے والے)   کی طرح مسواک کبھی کان پر لگا لیتے اور کبھی خادم کے سپرد فرما دیتے ۔

٭وضو کے دوران تمام سنن و مستحبات کا خوب خیال فرماتے ۔

٭ اعضائے وضو دھوتے وقت اوروضو کے بعد مسنون دعائیں پڑھتے ۔

٭نماز کے لئے عمدہ لباس زیبِ تن فرماتے اور نہایت وقار کے ساتھ نمازکی ادائیگی کے لئے تیّار ہو جاتے ۔

٭نمازِ فجر کی سنتیں گھر میں ادا فرماتے ۔٭فجر کے فرض مسجد میں جماعتِ کثیرہ (یعنی بہت بڑی جماعت)   کے ساتھ ادا فرماتے ۔

٭نمازسے فراغت کے بعد مسنون دعائیں پڑھتے،    پھردائیں یابائیں جانب رخ فرما کر دعا فرماتے اور دعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر لیتے۔

 ٭نماز کے بعد ذِکر،تلاوتِ قرآنِ کریم کاحلقہ قائم کرتے اورابتدائی طالب علموں کی تربیت فرماتے ۔

٭آپ رحمۃ اللہ علیہ اکثر خاموش رہا کرتے ٭بعض اوقات آپ پر گریہ (یعنی رونا)   طاری ہو جاتا اورآنکھوں سے سیلِ اشک رواں ہو جایا کرتا (یعنی خوب روتے)۔

٭نمازِ چاشت پابندی سے ادا فرماتے۔ ٭آپ نہایت ہی کم کھانا تناول فرماتے۔

 ٭کھانے سے پہلے اور بعد کی دعائیں پڑھتے ۔٭(دن میں )کھانے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے قیلولہ فرماتے ۔

٭اذان سن کر جواب دیتے۔ ٭نمازِ ظہر کے بعد پھرذِکرالٰہی کا حلقہ قائم کرتے،   اس کے بعد ایک دو سبق کی تدریس فرماتے ۔

٭تحیۃُ المسجد پابندی سے ادا فرماتے ۔٭نمازِ مغرب کے بعد اَوَّابین کے چھ نوافل ادا فرماتے۔

 ٭نمازِوتر کی ادائیگی کے بعد سنّت کے مطابق قبلہ رخ ہو کر سیدھا ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر آرام فرماہوتے ٭سورج یا چاند گرہن ہونے پر نمازِ کسوف و خسوف ادا فرماتے۔

 ٭آپ رحمۃ اللہ علیہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے۔

 ٭ذوالحجہ کے ابتدائی عشرے  (یعنی شروع کے دس دن)   میں مخلوق سے کنارہ کش ہو کر عبادت کا اہتمام فرماتے۔ ٭کثرت سے دُرُودِ پاک پڑھتے اور خصوصا شبِ جمعہ مریدوں کے ساتھ مل کر ایک ہزار درودِ پاک کا نذرانہ بارگا ہ رسالت میں پیش کرتے۔

 ٭سفر و حضر میں تراویح کی مکمل بیس رکعتیں خشوع و خضوع سے ادا فرماتے ۔

٭رمضان المبارک میں کم از کم تین مرتبہ قرآنِ کریم کا ختم فرماتے ۔

٭آپ رحمۃ اللہ علیہ چونکہ حافظِ قرآن تھے اس لئے اکثر تلاوتِ قراٰنِ کریم کا سلسلہ جاری رہتا ۔

٭دورانِ سفر بھی تلاوت فرماتے اور اگر اس دوران آیتِ سجدہ آجاتی تو فوراً سواری سے اتر کر سجدۂ تلاوت ادا فرماتے۔

 ٭ انفرادی نماز میں رکوع و سجود کی تسبیحات پانچ،سات ،نو یا گیارہ مرتبہ تک ادا فرماتے ۔

٭سفر کے لئے اکثر آپ پیر یا جمعرات کے دن کا انتخاب فرماتے۔

 ٭کپڑا پہننے ، آئینہ دیکھنے ،پانی پینے، کھانا کھانے،چاند دیکھنے اور دیگر معمولات میں جو مسنون دعائیں مروی ہیں ان کا اہتمام فرماتے ۔

٭نماز کی تمام سنتوں اور مستحبات کا خوب اہتمام فرماتے ۔٭جب کوئی بزرگ آپ سے ملاقات کے لئے تشریف لاتے تو تعظیماً کھڑے ہو جاتے ۔

٭سلام میں ہمیشہ پہل فرماتے۔٭علامہ بدر الدین سرہندی رحمۃ اللہ علیہ              فرماتے ہیں :   مجھے علم نہیں کہ کبھی کوئی شخص سلام میں آپ سے سبقت لے گیا (یعنی پہل کرنے میں کامیاب ہوا)   ہو۔

 ٭سر پر عمامہ شریف سجائے رکھتے ۔٭پاجامہ ہمیشہ ٹخنوں سے اوپرہوا کرتا۔    

(حَضَراتُ القُدْس،   دفتر دُوُم ص۸۰ تا۹۲مُلَخَّصًا)))    

حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا عمامہ شریف:

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ عمامہ  شریف آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سرمبارک پر ہوتا اورشملہ دونوں کندھوں کے درمیان ہوتا۔   (ایضاًص۹۲ مُلَخَّصًا) 

باعمامہ نماز دس ہزار نیکیوں کے برابر:

رسولِ اکرم،  نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم نے فرمایا:   

عمامہ کے ساتھ نَماز دس ہزار نیکی کے برابر ہے۔

 (اَلْفِرْدَوْس بمأثور الْخطّابً ج۲ص۴۰۶حدیث۳۸۰۵ ،   فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۶ص۲۱۳) 

کیا عمامہ صرف علماء ہی باندھیں ؟

حضرت علامہ مفتی محمد وقارُا لدین قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :   عمامہ صرف علما و مشائخ ہی کے لئے نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے سنّت ہے اور عمامے کی فضیلت اور عمامہ باندھ کر نماز پڑھنے کی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے اس لئے ہر بالغ مرد کے لئے عمامہ باندھنا ثواب کا کام ہے اور اچھے کام کی عادت ڈالنے کے لئے بچوں کو بھی اس کی تعلیم دینی چاہئے۔   (وقارالفتاوٰی ج۲ ص)۲۵۲   

اتّباع سنّت عشق  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول کی علامت: 

سچے عاشق رسول کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی نبی رحمت،   شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم کی سنّت کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتا ہے،   یوں سنت نبوی کو عملی طور پر اپنانے کی وجہ سے عاشقِ صادق کا دل عشق مصطفے میں تڑپتا ہے ۔حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہر عمل سنت مصطفے کی عملی تصویر ہوا کرتا ، آپ اپنی گفتگو ، چلنے پھرنے اور زندگی کے دیگر معمولات سنّت کے مطابق گزارتے،سنّتوں کی برکت سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو جو مقام و مرتبہ نصیب ہوا اس کے متعلّق آپ خود ارشاد فرماتے ہیں : نبی ٔ کریم ، رء وف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم کے کمالِ اتباع (یعنی مکمل پیروی)   کی وجہ سے مجھے ایسے مقام سے سرفراز کیا گیا جو ’’ مقامِ رضا‘‘ سے بھی بلند وبالا ہے۔   

(حَضَراتُ القُدْس،   دفتر دُوُم ص۷۷)   

سنّتوں کے مطابق زندگی گزارنا بہت بڑی سعادت ہے کہ اس کی برکت سے مقام ِ محبوبیت نصیب ہوتا ہے جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ خود ارشاد فرماتے ہیں : ’’ہر وہ چیز جس میں محبوب کے اخلاق و عادات پائی جائیں محبوب کے ساتھ وابستگی اور اس کے تابع ہونے کی وجہ سے وہ بھی محبوب اور پیاری ہوجاتی ہے،   اس کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے: 

فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ  

(پ۳،  اٰلِ عمرٰن:  )۳۱ 

ترجَمۂ کنزالایمان:   تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔ 

لہٰذا اللہ تَعَالٰی  کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم کی پیروی میں کوشش کرنا بندے کو مقامِ محبوبیت تک لے جاتا ہے،   تو ہر عقلمند پر لازم ہے کہ اللہ تَعَالٰی کے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم کی اتباع میں ظاہراً و باطناً پوری کوشش کرے۔  

(مکتوباتِ امام ِربّانی،   دفتر اول،   حصہ دوم،   مکتوب۴۱ ج۱ص)۵

تصانیف:

     آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف میں سے فارسی ’’مکتوبات امام ربّانی‘‘ زیا دہ مشہو ر ہوئے ۔ ان کے عر بی، اردو،  ترکی اورانگریزی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں ۔   آپ رحمۃ اللہ علیہ کے چاررسائل کے نام مُلاحَظہ ہوں :    

(۱)  اِثْباۃُ النُّبُوَّۃ  (۲)   رِسالہ تَہْلِیْلِیَّہ   (۳)   معارفِ لَدُنِّیَّہ  (۴)   شرحِ رُباعیات ۔   

حضرت  سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے 11 اَقوال :

٭حلال و حرام کے معاملے میں ہمیشہ باعمل علما سے رجوع کرنا چاہیے اور ان کے فتاوٰی کے مطابق عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات کا ذریعہ شریعت ہی ہے ۔   

(ایضاً،   حصہ سوم،  مکتوب۱۶۳ ج۱ص)۴۶ 

٭احکامِ شریعت کی صحیح نوعیت علمائے آخرت سے معلوم کیجیے ان کے کلام میں ایک تاثیر ہے،شاید ان کے مبارک کلما ت کی برکت سے عمل کی بھی توفیق مل جائے ۔   (ایضاً،   حصہ دوم،  مکتوب۷۳ ج۱ص)۵۹ 

٭ تمام کاموں میں ان باعمل علمائے کرام کے فتاوٰی کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہئے جنہوں نے ’’عزیمت‘‘ کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور ’’رخصت‘‘ سے اجتناب کرتے (یعنی بچتے)   ہیں نیزاس کو نجاتِ ابدی و اُخروی کاذریعہ و وسیلہ قرار دینا چاہیے۔   (ایضاً،  مکتوب۷۰ ج۱ص)۵۲ 

٭ نجاتِ آخرت تما م افعال و اقوال،  اصول و فرو ع میں اہلسنّت کی پیروی کرنے پر موقوف ہے ۔ (ایضاً،   مکتوب۶۹ ج۱ص)۵۰ 

٭ سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاسایہ نہ تھا۔

(ایضاً،  دفتر سوم ،  حصہ نہم،  مکتوب۱۰۰ ج۲ص)۷۵

٭ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ اپنے خاص علمِ غیب پر اپنے خاص رسولوں کو مطلع (یعنی باخبر)   فرماتا ہے۔

(ایضاً،  دفتر اول،  حصہ پنجم،  مکتوب۳۱۰ ج۱ص))۱۶۰)

٭حضورشاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ کوذِکرِ خیر (بھلائی)   کے ساتھ یاد کرنا چاہئے۔   

(ایضاً،  حصہ چہارم،  مکتوب ۲۶۶ ج۱ص )۱۳۲ 

٭ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ میں سب سے افضل حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رضی  اللہ تعالٰی عنہ  ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل سیِّدُنا فاروق اعظم رضی  اللہ تعالٰی عنہ ہیں، ان دونوں باتوں پر صحابۂ کرام اور تابعین کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کا اجماع  ہے، نیز امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی علیھم اَجْمَعِیْنَاور اکثر علمائے اہلسنّت کے نزدیک حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد تمام صحابۂ کرام میں سب سے افضل سیِّدُنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ،   پھر ان کے بعد سب سے افضل سیِّدُنا مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ہیں ۔ (ایضاً،  مکتوب۲۶۶ ج۱ص ۱۲۹،  ۱۳۰ ملخصا) 

٭مجلس میلاد شریف میں اگر اچّھی آواز کے ساتھ قراٰنِ کریم کی تلاوت کی جائے،   نعت شریف اور صحابہ و اہل بیت و اولیائے کاملین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَ کی منقبت پڑھی جائے تو اس میں کیا حرج ہے! 

(مکتوبات ِ امامِ ربّانی،  دفترسوم،  حصہ ہشتم ،  مکتوب۷۲ ج۲ص۱۵۷ ملخّصًا))) 

٭حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کمالِ محبت کی علامت یہ ہے کہ آدمی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں سے کامل دشمنی رکھے ۔  (ایضاً،  دفتراول،  حصہ سوم ،  مکتوب۱۶۵ ج۱ص۴۸ ملخّصًا)

گانا بجانا ز ہرقاتل ہے :

٭حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :   

گانے بجانے کی خواہش مت کیجیے ، نہ اس کی لذّت ہی پرفدا ہوں کیوں کہ یہ شہد ملا قاتل زہر ہے۔   

(ایضاً ،  دفتر سوم،  حصہ ہشتم ،   مکتوب ۳۴ ج ۲ ص ۸۶ ملخّصًا)؎ 

کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا:

گانے باجے سننا سنانا شیطانی اَفعال ہیں ،سعادت مندمسلمان ان چیزوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔  گانے باجوں سے بچنا بے حد ضروری ہے کہ اس کا عذاب کسی سے بھی نہ سہا جاسکے گا۔  حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے:   جو شخص کسی گانے والی کے پاس بیٹھ کر گانا سنتا ہے قیامت کے دن اللہ  عز وجل اس کے کانوں میں پگھلا ہواسیسہ انڈیلے گا۔   

(جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج ۷ ص ۲۵۴ حدیث )۲۲۸۴۳

حضرت سیِّدُنا مجدّدالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ:

 (پانچ ملتی جلتی صفات) 

اعلیٰ حضرت ،  امامِ اہلِسنّت ،مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک حیات  کے کئی گوشے ایسے ہیں جن میں حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ کی سیر ت کی جھلک نظر آتی ہے بلکہ تعلیم و تربیت، دینی خدمات حتّٰی کہ وصال کے مہینے میں بھی یکسانیت ہے۔   اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :    

{1}  حضرت سیِّدُنا  مجدّد الف ثانی اور امام اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما دونوں کا نام احمد ہے  ۔

{2} دونوں بزرگوں نے اپنے اپنے والد سے علمِ دین حاصل کیا  ۔

{3} دونوں حضرات  کی تمام عمر اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی میں بسر ہوئی۔

{4} دونوں صاحبان نے کبھی بھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکا یا  ۔

{5} دونوں اولیائے کرام کا وصال صفر المظفر میں ہوا۔   

آثارِ وصال :

حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ 1033ھ میں سرہند شریف آ کر خلوت نشین (یعنی سب سےالگ تھلگ) ہو گئے۔ اپنے خالق و مالک عَزوجل سے ملاقات کی  لگن نے مخلوق سے بے نیاز کردیا۔  اس خلوت خاص (یعنی خصوصی تنہائی) میں صرف چندافراد کوحجرے (یعنی کمرے) میں آنے کی اجازت تھی جن میں صاحبزادگان خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما،   خلفائے کرام میں سے حضرت خواجہ محمد ہاشم کِشمی،  حضرت خواجہ بدر الدین  رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما اور دو ایک خادم۔   حضرت خواجہ محمد ہاشم رحمۃ اللہ علیہ وصال (یعنی انتقال)   سے قبل ہی دکن تشریف لے گئے تھے۔   حضرت خواجہ بدر الدین رحمۃ اللہ علیہ آخر وقت تک حاضر رہے۔   جب حضرت خواجہ محمد ہاشم رحمۃ اللہ علیہ رخصت ہونے لگے تو حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ نے فرمایا:   ’’دُعا کرتا ہوں کہ آخرت میں ہم ایک جگہ جمع ہوں ۔ ( زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۸۲تا۲۸۵مُلَخَّصًا)    

وصال مبارک:

صفرُ المظفر 1034 ہجری 1624 ء کوجانِ عزیز اپنے خالق حقیقی کے سپرد کردی ۔ 

اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ (۱۵۶)۔ (حَضَراتُ القُدْس،   دفتر دُوُم ص)۲۰۸          

نمازجنازہ و تدفین :

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ آپ کے شہزادے حضرت خواجہ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی۔   اس کے بعد شہزادۂ مرحو م حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔   یہ وہی مقام تھا جہاں حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  نےاپنی زندگی میں ایک نور دیکھا تھا اور وصیت فرمائی تھی :  ’’میری قبرمیرے بیٹے کی قبر کے سامنے بنانا کہ میں وہاں جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری دیکھ رہا ہوں ۔  ‘‘  اس قبے (یعنی گنبد)   میں پہلے شہزادۂ مرحوم حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ 1025ھ کی تدفین ہوئی او ر اس کے بعد حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کوان کے پہلو میں دفن کیا گیا۔   اب اس روضہ شریف کو دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے ۔    

(  زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۲۹۴۔  ۲۹۶،  ۳۰۵  مُلَخَّصًا)))   

اَولاد کے مبارک نام : 

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سات شہزادے اور تین شہزادیاں تھیں جن کی تفصیل یہ ہے :   

شہزادگان: {1}  حضرت خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ {2}  حضرت خواجہ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ {3}  حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ {4}  حضرت خواجہ محمد فرخ رحمۃ اللہ علیہ {5}  حضرت خواجہ محمد عیسی رحمۃ اللہ علیہ   {6}  حضرت خواجہ محمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ {۷}  حضرت خواجہ محمد یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ ۔

شہزادیاں :

   {1}  حضر ت بی بی رقیہ بانو  رحمۃ اللہ علیہا  {۲} حضرت بی بی خدیجہ بانو رحمۃ اللہ علیہا{۳} حضرت بی بی ام کلثوم  رحمۃ اللہ علیہا

( زُبْدَۃُ الْمَقامات)

خلفائےکرام :

حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ  کےچند خلفائے کرام کے نام یہ ہیں :   

(۱) صاحبزادہ خواجہ محمد صادق  (۲) صاحبزادہ خواجہ محمد سعید  (۳) صاحبزادہ خواجہ محمد معصوم  (۴)  حضرت میر محمد نعمان برہان پوری  (۵)  شیخ محمد طاہر لاہوری  (۶)  شیخ کریم الدین باباحسن ابدالی  (۷)  خواجہ سید آدم بَنّوری   (۸)  شیخ نور محمد پٹنی  (۹)   شیخ بدیع الدین  (۱۰)  شیخ طاہر بَدَخشی  (۱۱)  شیخ یار محمد قدیم طالَقانی (۱۲)  حضرت عبدالہادی بدایونی  (۱۳)   خواجہ محمد ہاشم کِشمی  (۱۴)   شیخ بدالدین سرہندی رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام۔  (حَضَراتُ القُدْس)) 

حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  اور خُلفائے اعلٰی حضرتؒ:

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ  کے ایک خلیفہ امام المحدثین حضرت سیِّدُنا محمد دیدار علی شاہ اَلوَری رحمۃ اللہ علیہ  بھی نقشبندی مجددی ہیں ۔   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ  کے خلفا  ءکو بھی حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ   سےبے پنا ہ عقیدت و محبت تھی ،  سیدی قطب مدینہ حضرت قبلہ ضیاء الدّین احمد مَدَنی رحمۃ اللہ علیہ    نےایک مرتبہ سرپردونوں ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا :   ’’حضرت مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ علیہ   تو ہمارے سر کے تاج ہیں ۔  

 (سیدی ضیاء الدین  احمد القادری ج۱ص۵۰۹ ملخّصًا )   

یاربِّ مصطفٰے !  ہمیں اپنے ولی برحق حضرت سیِّدُنا مجدد الف ثانی  رحمۃ اللہ کے صدقے بے حساب مغفرت سے مشرف فرما کر جنت الفردوس میں اپنے پیارے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم کا پڑوس نصیب فرما۔  

آمین

مآخذ و مراجع:

کتاب، قراٰنِ کریم

زبدۃ المقامات، مکتبۃ الحقیقۃ استنبول1307ھ

بخاری، دار الکتب العلمیۃ بیروت

حضرات القدس، محکمۂ اوقاف پنجاب مرکز الاولیا لاہور 1971ء

مسلم، دار ابن حزم بیروت

جامع کرامات الاولیاء، مرکز اہلسنّت برکات رضا الہند

معجم کبیر، دار احیاء التراث العربی بیروت

مکتوبات امام احمد رضا، مکتبہ نبویہ مرکز الاولیا لاہور

شعب الایمان، دار الکتب العلمیۃ بیروت

سیرت مجدد الف ثانی، امام ربانی فاؤنڈیشن باب المدینہ کراچی

الفردوس بمأثور الخطاب، دار الکتب العلمیۃ بیروت

سیدی ضیاء الدین احمد القادری، حزب القادریہ مرکز الاولیا لاہور

جمع الجوامع، دار الکتب العلمیۃ بیروت

عالمگیری، دار الفکر بیروت

التیسیر، مکتبۃ الامام الشافعی ریاض

فتاوٰی رضویہ، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور

مراٰۃ المناجیح، ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیا لاہور

وقارالفتاویٰ، بزم وقار الدین باب المدینہ کراچی

اتحاف السادۃ المتقین، دار الکتب العلمیۃ بیروت

فتاویٰ بحرالعلوم، شبیر برادرز مرکز الاولیا لاہور

مکتوباتِ امام ربانی، کوئٹہ

بہار ِشریعت، مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

مبدا ومعاد، مکتبۃ الحقیقۃ استنبول   

استفادہ از :  www.dawateislami.net